نہ لب پر بولتی امید کا باصر
پرندہ ہے
نہ سوچوں کی کہانی میں
کوئی کردار زندہ ہے
یہ آنکھیں ہیں کہ اجڑی آرزو کی سوکھتی جھیلیں
کہیں بے رونقی کا ماتمی کاجل
کہیں وحشت بھری چیلیں
کہیں بےسود اشکوں میں سسکتے مضمحل ارماں
کہیں دامن سے لپٹی حسرتوں کا بے ریا نوحہ
مگر ہے حوصلہ اب بھی جواں ہر دم کہ جینا ہے
حوادث کے تھپیڑوں میں ہی اشکِ غم نگینہ ہے
بھری برسات میں جل تھل ہوں صحرا یا امڈ آئیں
ندی نالے تو کیا معنی
کوئی اجلی بہاروں میں کوئی نغمہ کوئی خوشبو کوئی خوش رنگ گل پالے تو کیا معنی
محبت بانجھ بھی ہو جاۓ تو قسمیں نبھائیں گے
یہ وعدہ ہے شبِ ظلمت تجھے نیچا دکھائیں گے

2
22
محبت بانجھ بھی ہو جائے تو قسمیں نبھائیں گے
یہ وعدہ ہے شبِ ظلمت تجھے نیچا دکھائیں گے؎

بہت خوب باصر صاحب!

شکریہ

0