ہر سمت زلفِ یار کی چھائی سی شام ہے |
اے صبحِ بے مراد تجھے کیا دوام ہے |
ہر شمع اس کے دستِ تصرف کی ہے کنیز |
خورشید و ماہ تاب بھی در کا غلام ہے |
اس دشتِ روح میں ہے فقط تیرا ہی وجود |
ہر لحظہ دل تجھی سے مرا ہم کلام ہے |
آدابِ بادہ خواری سے واقف نہیں جو کچھ |
افسوس آج ان کے ہی ہاتھوں میں جام ہے |
جو تھا حریفِ کشمکشِ روزگار یاں |
اس سیاہ بخت کا یہاں کوئی مقام ہے |
دے کر مجھے امیدِ ستم ہائے روزگار |
یہ کیا کہ میرے دل کو فقط اب آرام ہے |
معلومات