ساحل کوئی نہ کوئی بھی پتوار چاہیے
دریا تری بھنور کا ہمیں پیار چاہیے
رسوائی کے بغیر مکمل نہیں یہ عشق
اقرار ایک اور سو انکار چاہیے
ہر درد کی دوا ہے میسر جہان میں
قابل مگر علاج کے بیمار چاہیے
پیغام دے رہے ہیں جو زندہ ہیں واقعی
"پرواہِ سر نہیں ہمیں دستار چاہیے"
بیٹھے ہیں خوں کیے ہوۓ دل کا ہر ایک رگ
تیرِ نظر کا تیری اب اک وار چاہیے
کافی نہیں خوشامدیں اقرار کے لیے
قائل کرے جو دل کو وہ اصرار چاہیے

0
41