ذرا بھی دیتا نہیں ہے جو انبساط مجھے
وہ خود کو شاخ سمجھتا ہے اور پات مجھے
مرے سوا جو کسی کو پتہ نہ دیتا تھا
بتاتا اب وہ نہیں اپنی کوئی بات مجھے
گزرنا پڑ ہی گیا تلخ تجربوں سے بھی
سکھا گئے ہیں بہت کچھ یہ واقعات مجھے
ہٹا جو سر سے مرے باپ کا گھنا سایہ
تبھی سے تنگ سی لگتی ہے کائنات مجھے
کسی بھی چیز کو دنیا کی پائے داری نہیں
نہیں ہے تجھ کو بقا گر، کہاں ثبات مجھے؟
بڑے جتن سے تو اس کا حصار توڑا تھا
وہ پھر سے بس میں کرے گا لگا کے گھات مجھے
وہاں وہاں پہ ابھی زردیوں کے میلے ہیں
جہا ں جہاں وہ پھرا کرتا لے کے سات مجھے
ہؤا میں ڈھیر تو الزام تجھ پہ آئے گا
یہ مشورہ ہے ابھی تُو لگا نہ ہات مجھے
مَرا تو ایک نئی زندگی ملی ہے رشیدؔ
نہ کر سکے ہیں حیات و ممات مات مجھے
رشید حسرتؔ
١٠، نومبر ٢٠٢٥

0
1