| زخم کا داغ دل پہ چھوڑ گیا |
| کچھ بتایا نہ ، منہ بھی موڑ گیا |
| ۔ |
| جس نے کتنی بہاریں دیکھنی تھی |
| کوئی ظالم کلی وہ توڑ گیا |
| ۔ |
| ہجر کا وہ گرا کے بارِ گراں |
| خواب سارے ہی توڑ پھوڑ گیا |
| ۔ |
| ہم تو پھر بھی دعا ہی دیں گے اسے |
| کانچ کا دل اگرچہ توڑ گیا |
| ۔ |
| وہ مدثر چلا گیا ہے مگر |
| درد سے رشتہ میرا جوڑ گیا |
معلومات