| بجا کہ دُور، مگر آس پاس جیسے ہو |
| وہ اپنے آپ میں خُوشبُو ہے (باس جیسے ہو) |
| کِسی کو تن پہ سجایا ہے پیرہن کی طرح |
| میں اُس کی لاج، وہ میرا لِباس جیسے ہو |
| دھڑک دھڑک کے مچلتا ہے میرا دِل ایسے |
| اِسے کِسی کے پلٹنے کی آس جیسے ہو |
| صدا بلند کوئی حق کے واسطے جو کرے |
| تو شہ خیال کرے اِلتماس جیسے ہو |
| پلٹ کے آنے میں یُوں مصلحت کا وہ ہے شِکار |
| نہِیں ہو اُس کو، فقط مُجھ کو پیاس جیسے ہو |
| کبھی کبھی وہ مُجھے ایسے ڈانٹ دیتی ہے |
| وہ میری بنِت نہ ہو سخت ساس جیسے ہو |
| دِکھا رہا ہے نئے مُعجزے محبّت کے |
| ہُنر میں کُوزہ گری کے وہ خاص جیسے ہو |
| مرادیں جھولیاں بھر بھر کے سب کو دیتا ہے |
| محبّتوں کا امر دیو داس جیسے ہو |
| رشِید ہم تو ہیں پیوست ایک دُوجے میں |
| ہو استخوان مِرا، اُس کا ماس جیسے ہو |
| رشید حسرت |
معلومات