| نواب زادہ ہارون جان رئیسانی شہید |
| کے لییے۔ |
| ہماری قوم کا روشن سِتارا ڈُوب گیا |
| وہ زخم کرتا ہُؤا دوستو! قُلُوب گیا |
| انا کی جنگ کوئی جِیت ہی نہِیں پایا |
| شہیدِ حق جو ہُؤا ہے یہاں سے خُوب گیا |
| ہر ایک گام پہ مکر و فریب پایا یہاں |
| نگر سے جُھوٹ کے گویا وہ ہو کے اُوب گیا |
| چلا گیا ہے مگر ساتھ ساتھ رہتا ہے |
| ہمارے چہروں کو کرتا ہُؤا شُحُوب گیا |
| کہ تیرے بعد تو وِیران سے ہیں گھر والے |
| کہاں کو چھوڑ کے تُو ان کا اے رُقُوب گیا |
| بس ایک بیٹا تھا ماں، باپ کا، گیا وہ بھی |
| جو روشنی کا سبب تھا وہ شمس ڈُوب گیا |
| بِشارتیں اُسے جنّت کی مِل گئی ہوں گی |
| کہ بانٹتا ہُؤا لوگوں میں جو حُبُوب گیا |
| وہ شب کی تِیرگی سے تو نبرد آزما تھا |
| سِتارہ آخرِ شب کا تھا ہو غُرُوب گیا |
| رشِیدؔ ہم توچلے آج ڈگمگاتے ہُوئے |
| سمیٹتا ہُؤا اپنی وہ سب لُغُوب گیا |
| رشِید حسرتؔ |
معلومات