| جب سکینہ س نے کہا دل سے لگالو بابا |
| کب سے مقتل میں کھڑی ہوں میں بلا لو بابا |
| شمر نے بال پکڑ کر مِرے پھینکا ہے مجھے |
| پیار کرکے مجھے گودی میں اٹھالو بابا |
| درمیاں لاشوں کے میں ڈھونڈ رہی ہوں تم کو |
| کتنی لاشوں پہ گری ہوں میں سنبھالو بابا |
| ہوگئے نیلے طمانچوں سے یہ رخسار مِرے |
| شمر اب درّے لگاتا ہے بچالو بابا |
| ہوں میں دن بھر کی تھکی نیند ہے آنکھوں میں بھری |
| اپنے سینے پہ مجھے پھر سے سلالو بابا |
| کانوں سے چھین لئے شمرِ لعیں نے گوہر |
| میرے عمّو کو ترائ سے بُلا لو بابا |
| آج بھی کہتی ہے رو رو کے سکینہ س صائب |
| مجھ کو زندانِ مصیبت سے چُھڑا لو بابا۔ |
معلومات