| مشترکہ اک بات جو اپنی ہم نے کل پر رکھی ہے |
| پل بھر کی ہے لیکن پھیلا کر پل پل پر رکھی ہے |
| درد کا سارا منظر لے کر گھوم رہی ہو گاؤں میں |
| آنکھوں کی ہر بوند سُکھا کر کیوں آنچل پر رکھی ہے |
| ٹوٹ کے برسے گا یہ ساون دشت ہرا ہوجائے گا |
| اب کے میری آہ بھی موسم نے بادل پر رکھی ہے |
| شب بھر باہیں ڈال کے روئے خوب جہاں تھے چاند کے ساتھ |
| دھوپ نہ جانے کب سورج نے اس دلدل پر رکھی ہے |
| کتنا گہرا رنگ ہے بکھرا شبنم کی پرچھائی سے |
| جانے اس نے ایک نمی سی کیوں کاجل پر رکھی ہے |
| آپ کو فرصت مل جائے تو شمع بجھا کر پڑھ لینا |
| شؔیدا جی نے اپنی کہانی طاقِِ غزل پر رکھی ہے |
معلومات