جب شب بھر میرے پھر سے تیرا عکس رہا۔
کہ ہوا میں خنکی رہی سدا تیرا لمس رہا۔
کہ نگاہیں ہی پیاسی رہیں دید کی آس لگا۔
سب لگ رہا ہے جیسے پھر عمر ہی ترس رہا۔
قیدی نے قید رہائی کی کوشش کی تھی۔
پھر سے نجات نہ مل سکی قفسی کو قیدِِ قفس رہا۔
چاروں سو زمانے میں یہ کیسی ہوا چلی ہے۔
یوں لگا جیسے نہ محبت اس کا درس رہا۔
اب نیند نہ آنکھوں میں نہ سکون ہی سانسوں میں۔
کیسا ساون تھا ابھی اتنا اب ہَرس رہا۔
کہ یہاں کیا کون جو تیری بات ہی سنتا ہے۔
سارے جہاں بھر میں نہ تیرا کوئی ہم نفس رہا۔
پہلی دنیا ہے نہ پہلے سا تو ہے لیکن۔
اب لگ رہا ہے پہلے سا نہ پھر یہ شمس رہا۔

0
31