| ملتی ہے اسپتال سے موت اب شفا نہیں |
| لینی اگر ہو سانس تو خالص ہوا نہیں |
| مدت سے ایک خوف سا طاری ہے شہر پر |
| آواز دی تو ایک بھی پتا ہلا نہیں |
| خاموش تھا تو زندگی آسان تھی بہت |
| کھولی زباں تو اب کہیں میری جگہ نہیں |
| میرے نگر کے باسیوں نے طے کیا ہے یہ |
| ہم نے غلام رہنا ہے ، ہونا رہا نہیں |
| ہمت نہیں کسی میں کہ اتنا ہی بول دے |
| زندوں کا ملک ہے کہ یہ عبرت کی جا نہیں |
| مجھ کو نہ راہِ حق سے کوئی بھی ہٹا سکا |
| مقتل میں ہوں کہ جبر کے آگے جھُکا نہیں |
| اس سلطنت کے تخت پہ بیٹھے ہیں ایسے لوگ |
| جن کا اسے بنانے میں کچھ بھی لگا نہیں |
| ملتی نہیں یہاں پہ اجازت سوال کی |
| اتنی گھٹن ہے ، سوچ کا بھی در کھُلا نہیں |
| بن جاتا ورنہ میں بھی حکومت میں اک وزیر |
| بازار میں ضرور تھا لیکن بکا نہیں |
| نکلے ہیں آستیں سے مری سَو طرح کے سانپ |
| غیروں کے وار سے کبھی میں یوں گرا نہیں |
| ہوں گے ،وُہ جن کو بخت بٹھاتے ہیں تخت پر |
| ہم تو وُہ بد نصیب ہیں ، لگتی دُعا نہیں |
| پھرتے برادران ہیں یوسف کے ہر طرف |
| مقبول ، دل سے کوئی کسی کا سگا نہیں |
معلومات