| مدہوش ہے الفت یہ دستور سنا کر |
| اب ہو گا وصالِ جاناں جاں کو لٹا کر |
| آغوشِ محبت میں طوفان بپا ہے |
| اے کشتیِ جاں کچھ تو محتاط رہا کر |
| وہ عشق کا مارا ہے تم دیکھنا اب وہ |
| ہم سب کو رلا دے گا روداد سنا کر |
| ساقی تری محفل سے ہم زخم رسیدہ |
| لوٹے ہیں فقط اپنی یہ جان بچا کر |
| سنتے ہیں ترا چہرہ پھولوں سے حسیں ہے |
| جی چاہے تجھے دیکھیں ہم پاس بٹھا کر |
| کل ظلمتِ شب نے جو ہم سے ضیا مانگی |
| اس کو کیا روشن ہم نے گھر کو جلا کر |
| کیا تجھ کو خبر ہے اپنی آنکھوں میں ساغر |
| رکھتے ہیں بہت تیرے ہم خواب سجا کر |
معلومات