| ہنستا تھا جو کہ میرے گریہ کو دیکھ کر |
| روتا ہے آج وہ نقشِ پا کو دیکھ کر |
| پیاسا پڑا تھا صحرا سورج کی نوک پر |
| دریا بدل گیا رخ صحرا کو دیکھ کر |
| شاہیں ہمارے جانے کس سمت چل پڑے |
| بدمست ہو رہے ہیں مجرا کو دیکھ کر |
| مطلب کا دور دیکھو چُوری کے واسطے |
| مجنوں بنے ہیں کتنے لیلیٰ کو دیکھ کر |
| وہ جو ترس رہا تھا پانی کی بوند کو |
| پیاسا ہی مر گیا پھر دریا کو دیکھ کر |
| چالاک ہو گئے ہیں میرے عزیز سب |
| چالیں بدل رہے ہیں دنیا کو دیکھ کر |
| اک شیر تنہا آیا کتوں کے دیس میں |
| سارے جھپٹ پڑے پھر تنہا کو دیکھ کر |
| ہنس کھیل کے ہی ساغر جیون گزر گیا |
| شرمندہ ہو رہا ہوں عقبیٰ کو دیکھ کر |
معلومات