| سبز ہوتی ہے کبھی سرخ کہانی، پانی |
| اور ہوتی ہے شہیدوں کی زبانی، پانی |
| کیوں اُچھل کر نہِیں قدموں میں گرا شاہوں کے |
| شرم سے دوستو پانی ہؤا پانی پانی |
| کیسے پابندی لگی تجھ پہ فرات آج بتا |
| پھر بھی قائم تھی بھلا کیسے روانی، پانی؟ |
| لے کے مشکیزہ علمدار چلے سُوئے فرات |
| سُوکھے ہونٹوں پہ سکینہ کے تھا پانی پانی |
| یوں تو کربل میں تِری بوند کو ترسے ہیں شہید |
| تُو نے دیکھی تو جوانوں کی جوانی پانی |
| کچھ پتہ تجھ کو بھی اے نہر ہُؤا ہے کہ نہیں؟ |
| آ کے ٹھہرا ہے کوئی یوسفِ ثانی، پانی |
| پیاس پیاسوں کی اگر یہ نہ بُجھا پایا رشید |
| پھر تو رکھتا ہی نہیں کوئی معانی پانی |
| رشِید حسرتؔ |
معلومات