چھوڑ کے مجھ کو وہ جانا چاہتا ہے
اس لئے کوئی بہانہ چاہتا ہے
جانتا ہے بچھڑا تو مر جاؤں گا میں
بس یہی تو آ زمانہ چاہتا ہے
دردِ فرقت کے مجھے وہ صدمے دے کر
عمر بھر مجھ کو رلانا چاہتا ہے
آج نفرت ہے مری باتوں سے اُس کو
آج ہر لمحہ ستانا چاہتا ہے
جن کو رکھتا تھا وہ سینے سے لگا کر
خط وہ سارے اب جلانا چاہتا ہے
میں کہ اک بجھتا دیا ہوں شب کا مارا
جانے کیوں مجھ کو بجھانا چاہتا ہے
جس نے دیکھا ہی نہیں تھا مڑ کے ساغر
اب مری تربت پہ آنا چاہتا ہے

0
158