ہجر ایک اذیت ہے |
کہ اس اذیت کا ہر لمحہ |
بذات خود اذیت ہے |
اگر یہ شاخِ دریا سے |
چمٹ جائے تو توبہ ہے |
یہ اسی شاخِ دریا کو ہمیشہ اپنے دھارے سے |
جدا کر دے تباہ کر دے |
اگر یہ مہکتے ہوئے پھولوں کے آنگن سے |
رقابت پہ اتر آئے |
تو ممکن ہے |
کہ پھولوں کو شاخوں سے |
جدا کردے تباہ کر دے |
اگر یہ آسماں کے تاروں کو |
پکڑ لے اپنے مٹھی میں |
تو سورج کو اٹھا لائے پھر مشرق کے اجالوں سے |
مٹا دے بزمِ انجم کو |
ستاروں کی محفل سے |
فلک میں اوجِ ثریا تک |
سبھی کو بے ضیاء کر دے |
تباہ کردے تباہ کردے |
مگر آدم کی ذریت کی |
کہانی مختصر سی ہے |
پکڑ لے ابن آدم کو |
تو جیتے جی ہی دنیا میں |
وہ زندہ لاش ہوتی ہے |
وہ زندہ لاش ہوتی ہے |
معلومات