سب سے ہیں حسیں لگتے جو جلوے ہیں طیبہ کے
دل چاہے نظر دیکھے جو جلوے ہیں طیبہ کے
جس راہ سے ہیں گزرے کبھی زائرِ طیبہ کے
انہیں پیارے نظر آئے جو جلوے ہیں طیبہ کے
مولا میں چلا آؤں پھر راہوں پہ طیبہ کی
ہر سمت حزیں دیکھے جو جلوے ہیں طیبہ کے
جاری ہیں سدا دیکھیں ہیں چشمے جو رحمت کے
ہیں مدِ نظر میرے جو جلوے ہیں طیبہ کے
اس شہر میں ہر دم ہے کیا نور سماں چھایا
ہیں کتنے کرم والے جو جلوے ہیں طیبہ کے
قادر کے خزانوں سے دیتے ہیں میرے آقا
احساں ہیں یہ دلبر کے جو جلوے ہیں طیبہ کے
محمود حسیں در کا اک ادنیٰ بھکاری ہے
مولا یہ سدا دیکھے جو جلوے ہیں طیبہ کے

21