سچ کو سچ ہی کہا گفتار کا سودا نہ کیا
ڈر کے مارے کبھی اخبار کا سودا نہ کیا
ساتھ مظلوم کا دینا ہی گوارہ تھا مجھے
ہاتھ کٹوا دیے تلوار کا سودا نہ کیا
مجھ کو منظور ہے پھانسی پہ لٹکنا لیکن
سر جھکٰا یا نہیں دستار کا سودا نہ کیا
میرے اسلاف نے یہ درس دیا ہے مجھ کو
جان پر بن آئی کردار کا سودا نہ کیا
مجھ کو معلوم تھا منزل ہے بہت دور مری
کیاہوا راستے پرخار کا سودا نہ کیا
تیز طوفان سے ساحل پہ نکل آئے مگر
ٹوٹی پھوٹی ہوئی پتوار کا سودا نہ کیا
بن کے جگنو ں ہی سہی رہنے دو قاسم کو یہاں
بدلے خورشید کے انوار کا سودا نہ کیا

0
103