| اب کسی طور، کہیں بھی نہ سمانا ہے مجھے |
| دل یہ کہتا ہے، ترا دل ہی ٹِھکانا ہے مجھے |
| جن دیاروں میں رہوں، جیسی فضاؤں میں اُڑوں |
| پھر اسی پیڑ، اسی شاخ پہ آنا ہے مجھے |
| کون کہتا ہے ترے من کی نہیں ہے قیمت |
| ایک سوغات ہے، انمول خزانہ ہے مجھے |
| یہ جو کچھ لوگ خدا بن کے یہاں قابض ہیں |
| فن کسے کہتے ہیں یہ ان کو بتانا ہے مجھے |
| جب میں آیا تھا بہت خوش تھے مِرے بابا، امّاں |
| اور دنیا سے ابھی لوٹ کے جانا ہے مجھے |
| جوّا گر ایسا، بچا کچھ بھی نہیں جاں کے سوا |
| آخری داؤ اسی کو ہی لگانا ہے مجھے |
| مال کھاؤں میں یتیموں کا، دلوں کو توڑوں |
| خواب جنّت کا بہرطور سہانا ہے مجھے |
| لوگ کتنے ہی ملے یوں تو یکے بعد دگر |
| سب سے پیارا تو مرا دوست پرانا ہے مجھے |
| میں نے ماں باپ پہ کالج میں دیا لکچر بھی |
| اور انہیں کو ہی ابھی گھر میں ستانا ہے مجھے |
| آیا سندیس وہ ملنے کے لیئے آئے گا |
| سو شکستہ در و دیوار سجانا ہے مجھے |
| میں نے اک فیصلہ جو خود سے کیا ہے لوگو |
| اور اب سامنے کو ایک زمانہ ہے مجھے |
| مانو اوروں کی طرح چاند ستاروں کا کہا |
| واقعۃً کس نے کہا توڑ کے لانا ہے مجھے |
| آج پھر حسن کے دربار میں پیشی ہے رشیدؔ |
| اس پری رخ سے ہی ملنے کا بہانہ ہے مجھے |
| رشید حسرتؔ |
معلومات