چٹھی لکھے ہے روز مگر بھیجتا نہیں
معلوم دل کو مستقل اس کا پتہ نہیں
۔
ہر چیز پر زمانہ خبردار ہے مگر
کوئی بھی حالِ دل مرا تو بوجھتا نہیں
۔
کرتا ہے قتل کتنے ہی غیرت کے نام پر
سن کر وعیدِ نار تو کیوں کانپتا نہیں
۔
سکھ کے شریک جگ میں ملیں گے قدم قدم
پر دکھ کسی کا کوئی مگر بانٹتا نہیں
۔
دنیا ہے بے ثبات مگر پوچھتا ہے یوں
گو عاجز اصل اس کی تو وہ جانتا نہیں

0
13