اپنی طلب کے واسطے دستِ طلب دراز کر
وہ ہے کریم و کارساز اُس کی عطا پہ ناز کر
شیریں سخن کلام ہے اردو بھی کیا زبان ہے
ایسی زباں سے پیار کر شاعری کا اغاز کر
اتنی تڑپ سے اے خدا تجھ سے دعا کروں کبھی
کہنے لگیں ملائکہ نہ اتنی زباں دراز کر
پڑ گئی ہیں دعاؤں میں سب کی کہیں دَرار اب
درزی نہیں دعاؤں کو تُو رَفُو کارساز کر
رب کی عطا ہو گر تجھے فضلِ خدا سے اے زبیر
دستِ طلب نہ کر کبھی پہلی عطا پہ ناز کر

0
10