مرے ہی دل کے مکاں سے نکلا
یہ دھواں سا جو یہاں سے نکلا
پھر ابھر کے مری جاں سے نکلا
یہ دھواں سا جو دھواں سے نکلا
رنگ لائی ہے بلاۓ عشق یہ جب
دل جلوں کے دل و جاں سے نکلا
بن گئی ہے وہی میری تقدیر
جو ستم گر کی زباں سے نکلا
آمدِ نم سے ہیں آنکھیں حیران
کہاں کا درد کہاں سے نکلا
پھر ضرورت نہ ہوئی لشکروں کی
تیر یوں اسکی بیاں سے نکلا

0
17