طوفان و تلاطم مرے جذبات کرے ہے
وہ بات کرے ہے کہ کرامات کرے ہے
دشمن ہے وہ ایسا کہ مدارات کرے ہے
یاری میں بھی وہ دشمنوں کو مات کرے ہے
کرتا ہوں تقاضاۓ ملاقات جب ان سے
ہر بار وہ عیار نئی بات کرے ہے
کرنوں کی چمک ہے نہ ہی گھنگھور اندھیرا
روشن مرے گھر کو وہ یوں دن رات کرے ہے
ہر لہجہ ہے اسکا یہاں پگھلا ہوا شیشہ
سانچے میں بھی ڈھل کے وہ خرافات کرے ہے
دیوانے ہیں اسکے ہی سبھی رند و سبو کش
زاہد کے بھی تبدیل خیالات کرے ہے

0
40