جب بھی انہونا واقعہ ہوتا |
شور دل میں نہ کیوں بپا ہوتا |
تو بچھڑتا کسی طریقے سے |
سانحہ اور کچھ ہوا ہوتا |
کوئی بھی دکھ نہ دیکھنا پڑتا |
تو مرے دل میں گر رہا ہوتا |
دشتِ جاں بھی مثالِ درویشی |
چاہتوں کا حرم سرا ہوتا |
میں تری بھی سزا بھگت لیتا |
ساتھ میرے نہ گر دغا ہوتا |
لب و رخسار اورزلفوں پر |
شعر کوئی کبھی ہوا ہوتا |
میں بھی فردوس سے بری ہو کر |
تیری دنیا میں آگیا ہوتا |
میں جگہ اپنی خود بنا لیتا |
مجھ کو بس راستہ دیا ہوتا |
ایک ہی رنج رہ گیا دل میں |
کاش وہ درد آشنا ہوتا |
آنکھ سے آنکھ بھی نہ ملتی کبھی |
مجھ پہ یہ رستہ ادھ کھلا ہوتا |
رنج ہوتا تجھے بھی تند ہوا |
میں اگر أخری دیا ہوتا |
جونؔ کاظمی |
معلومات