اتنا ہجوم خود کو گنوانے کی دیر ہے
سمجھو ں کہ گمشدہ ہوں بتانے کی دیر ہے
خوشبو کی طرح رقص کرے گی مری غزل
مصرع تمہارےنام اٹھانے کی دیر ہے
لازم ہے اپنی ساری دعائیں ہوں فکر مند
لشکر تمہارے شہر سے آنے کی دیر ہے
کھل جائیں گے یہ زخم گلابوں کی شکل میں
رسوائیوں کا جشن منانے کی دیر ہے
پردے سے باہر آئے زرا ان کا بانکپن
ہم سے بھلا کیا جان لٹانے کی دیر ہے
ہو جائے گا یہ شہرِ طلسمات بھی کھنڈر
بس ایک مشتِ خواب چرانے کی دیر ہے
کھولیں گے آنکھ غم کے شبستاں میں پھر چراغ
شؔیدا غزل تمہاری سنانے کی دیر ہے

0
9