کیا تم نے یہ سنا ہے کہ
محبت خود خداوند ہے
خدا نے اس محبت کو اتارا آسماں سے جب
تو محبت کا تخم لے کر
فلک سے کئی ملک اترے
جسے آدم کے سینے کی محبت خیز دھرتی پر
بویا اور کہا رب نے
تجھے حوا کی فرقت کا زخم سہنا پڑے گا اب
زمیں پر پھر جدا ہو کر تمہیں رہنا پڑے گا اب
تو آدم نے کہا رب سے
مرے مالک رحم مالک رحم مالک
ہوا پھر یوں کی حوا کی جدائی میں تنہائی میں
زمیں کے چپے چپے پر
آدم جی بہت روئے
سنو جاناں
میں آدم کی ذریت ہوں
تو حوا کی نشانی ہے
مگر مجھ میں نہیں ہمت کہ اُتنا رو سکوں گا میں
تمہارے بن میں پل بھر بھی اکیلا رہ نہیں سکتا
وہی صدمے جدائی کے قسم سے سہہ نہیں سکتا
تمہیں قسمِِ محبت ہے
مجھے اس اذیت سے کبھی دو چار مت کرنا
شناسا دردِ فرقت سے مجھے سرکار مت کرنا
میرے سرکار مت کرنا اے میرے یار مت کرنا

0
36