سایہ ملا ہے جس کو میرے حضور کا
آقا ضیائے ہستی مولا کے نور کا
قرباں ہے جان کرتا آلِ رسول پر
کشتہ یہ نامِ رب کا بردہ حضور کا
مقصود منزلوں کے ان کے غلام ہیں
جن کو کہاں ہے خدشہ یومِ نشور کا
کربل میں گل کھلے ہیں خونِ رسول سے
حیران دیکھے اس کو وہ جلوہ طور کا
دیکھیں خُبیب ان کا عشقِ بلال بھی
نامِ نبی نشہ ہے جن کے سرور کا
خاصوں میں خاص ہیں یہ بندہ نواز کے
کیسا کرم ہے ان پر ربِ غفور کا
ان کو ملی ہے مجلس آقا کریم کی
پورا ملا ہے حصہ اعلیٰ شعور کا
دل شاد ہیں یہ رہتے مولا کے فضل سے
ہے سایہ ان سروں پر دانا غیور کا
محمود مصطفیٰ ہیں محبوبِِ کبریا
بولو بنائے مولا بردہ حضور کا

26