| محبت کی راہوں کا یہ جو سفر ہے |
| حسیں تو ہے یارو! کٹھن بھی مگر ہے |
| خطا پھر وہی کر گیا دل ، کہ جس پر |
| کیا کتنی دفعہ اسے با خبر ہے |
| ذرِ یادِ جاناں بھلا کھو دوں کیسے |
| یہی تو فقط اپنا زادِ سفر ہے |
| مرا دل بھی کھچتا ہے یارو اسی سمت |
| کہ جس سمت میرے گلِ تر کا گھر ہے |
| دِیا پریم کا کر گیا تھا جو روشن |
| اسے ڈھونڈتی آج بھی یہ نظر ہے |
| ہے ویران ایسے مرا خانۂ دل |
| کوئی جیسے رنج و الم کا نگر ہے |
| کوئی نامِ عاجز کی جپتا تھا مالا |
| ہمیں ناز اب بھی ــ اسی بات پر ہے |
معلومات