رہِ افرنگ پہ تو ہی چلا تھا
تو ہی تاریکیوں میں اب بسر کر
تو کیوں ہے ساغرِ جم کا بھی طالب
سفالِ ہند کو ہی جامِ جم کر
ہیں قدرت کے بہت سارے نظارے
مگر تاریکیوں میں تو بسر کر
خیالِ غیر مجھ کو آ رہا ہے
تو اپنے گھر سے مجھ کو در بدر کر
جہاں کتراتا ہے دار و رسن سے
تو ہی دکھلا دے دنیا سے گزر کر
کہ اس پردے میں تجھ کو دیکھ پاؤں
مجھے بھی اے خدا اہلِ نظر کر
ملے دیدارِ حق تجھ کو بھی ثانی
تو پہلے آہ میں اپنی سحر کر

0
18