دل ہی نہیں ہے جسم میں اے جان کیا کریں |
خالی مکاں میں اب تجھے مہمان کیا کریں |
جی بھر کے خود کو کیجئے برباد، ہاۓ دل |
یوں بھی نہیں ہے وصل کا امکان کیا کریں |
سب مشکلیں ہیں عشق سے لیکن اے دل مرے |
اب زندگی کو اس قدر آسان کیا کریں |
گو راستے میں عشق کے مجمع لگا رہا |
راہِ وفا ہے آج بھی سنسان کیا کریں |
اک پیار وہ بھی ہجر کے زخموں سے چور ہے |
اس سے زیادہ دل کا بھی نقصان کیا کریں |
پھر یوں ہوا کہ آنکھ کے زینوں سے گر گیا |
مزدور دل سے خواب کا سامان ،کیا کریں |
معلومات