آنکھیں جب دُکھنے لگیں دید کہاں کی جائے |
اس قدر شور ہے اَب عید کہاں کی جائے |
حرف تو آئے گا پھر زیست کی تہ دستی پر |
اور پھر مجھ سے بھی تنقید کہاں کی جائے |
زندگی کچھ بھی نہیں موت کے بستر کے سوا |
آپ کی مان لی تردید کہاں کی جائے |
ایک وعدہ ہے کہ جینے کی قسم کھائی ہے |
ایک حسرت ہے کہ تجدید کہاں کی جائے |
میں نے مانا کہ یہ دن عید کے دن ہیں لیکن |
ایسی دنیا میں مگر عید کہاں کی جائے |
سید ہادی حسن |
دو مئی دو ہزار بائیس۔عید سے پہلے |
معلومات