خاک ہوں خاک کو بکھرنا ہے
جانِ جاں جان سے گزرنا ہے
اک ہی کردار ہے کہانی میں
ایک کردار ہی کو مرنا ہے
بس کہ اک اور ہے رفو باقی
بس کہ اک اور گھاو بھرنا ہے
موسموں سے کہو کہ رستہ دیں
بوند کو آنکھ سے اترنا ہے
ریت پر کھینچ کر ہیں لائے ہم
ان لکیروں کو کیا سنورنا ہے
ہجرتوں کی یہ دھول دھو ڈالیں
ہجر کے راستے میں جھرنا ہے
آہٹوں کو سمیٹ لو شؔیدا
گردشِ وقت کو ٹھہرنا ہے

0
9