کرم مصطفیٰ کا ہے وہ آسرا
جو تریاقِ جاں ہے دکھوں کی دوا
غموں سے بچائے خلق کو نبی
دکھائے جو رستہ ہے سب سے بھلا
ورودِ نبی سے سجا کُل دہر
جہاں ظلمتوں کا ہوا پُر ضیا
حسیں ضوفشانی نبی کا ہے دان
یوں گردوں کو ان سے ملی ہر جلا
ہے نورِ بصیرت عطائے نبی
خدا کا پتہ بھی نبی سے ملا
نگینہ زمیںں کا دیارِ نبی
گلی دے سخی کی ارم کا پتہ
درِ مصطفیٰ کی جو سوچیں ملیں
ملا وہ وظیفہ جو دے ہر شفا
ہے کردار ان کا فلاحِ زماں
خُلق ہے نبی کا دہر میں سوا
صلوٰۃِ نبی سے فزوں تر دہر
اے محمود ان پر درودِ خدا

37