| ہم غرِیبی کی رِدا تان کے سو جاتے ہیں |
| زخم سب گِنتے ہُوئے آن کے سو جاتے ہیں |
| شب کو تھکتے ہیں تو فُٹ پاتھ کنارے ہی کہیں |
| ساتھ چُوری کِیے سامان کے سو جاتے ہیں |
| بُھوک آنکھوں میں نمی بن کے چمک جاتی ہے |
| بچّے بُھوکے مِرے دہقان کے سو جاتے ہیں |
| اِس سے پہلے کہ کوئی کام ہمیں لا سونپے |
| جاں بچانے کے لِیئے جان کے سو جاتے ہیں |
| بات سے بات نِکل آئی غرِیبی کی میاں |
| جاگتے دشت سو ارمان کے سو جاتے ہیں |
| ہم کو محرُومیوں کی دُھول مِلی، زخم مِلے |
| ہم نصِیب اپنا اِسے مان کے سو جاتے ہیں |
| جِس نے بُنیاد رکھی مُلک میں مہنگائی کی |
| نالے کرتے ہُوئے عِمران کے سو جاتے ہیں |
| ہم نے دیکھا ہے کہ قِیمت بھی ادا ہوتی ہے |
| مُتحمّل نہِیں احسان کے سو جاتے ہیں |
| کیوں سمجھ بیٹھے کہ اب صاحبِ سِطوت ہم ہیں |
| چند ٹکڑے جو مِلے دان کے، سو جاتے ہیں |
| نہ سُپاری نہ کتھا ہے نہ تماکُو گھر میں |
| ہم تو قابِل نہ رہے پان کے، سو جاتے ہیں |
| ہم نے مطبخ میں رشِیدؔ اپنا لگایا بِستر |
| ناز اُٹھاتے ہُوئے مہمان کے سو جاتے ہیں |
| رشِید حسرتؔ |
معلومات