| ماہ و خورشید بھی منہ اپنا چُھپا بیٹھے ہیں |
| آج وہ پردہِ صورت کو ہٹا بیٹھے ہیں |
| لوٹ پائیں گے اُنہیں کیا یہ تِرے عشوہ و ناز |
| پہلے ہی اپنے دل و جاں جو لُٹا بیٹھے ہیں |
| اُن کی مرضی وہ کریں یا نہ کریں چارہ گری |
| ہم اُنہیں دردِ شبِ ہجر سنا بیٹھے ہیں |
| اب مِرا دل ہے کہ دن رات تڑپتا ہی رہے |
| دے کے وہ ایک جھلک آگ لگا بیٹھے ہیں |
| کیسے جمتا ہے زرا دیکھیے اب رنگِ بزم |
| وہ مجھ آشفتہ کو محفل سے اُٹھا بیٹھے ہیں |
معلومات