| مُجھ سے یہ کردار نبھائے نہیں جاتے |
| چہرے پر چہرے چڑھائے نہیں جاتے |
| جو دن میں بھی تم کو دکھائی نہیں دیتے |
| رات کو پھر وہ دُکھ بھی دکھائے نہیں جاتے |
| اُس کو کہو اب سامنے سے آ کر کرے وار |
| مُجھ سے یہ ترچھے زخم چھپائے نہیں جاتے |
| تیرے رویے کا تذکرہ کس سے کروں جا کر |
| ہو کے برہنہ تو داغ دکھائے نہیں جاتے |
| تھکنے لگا ہے میرا وجود محبت سے |
| مجھ سے اور اتنے غم اُٹھائے نہیں جاتے |
| تُجھ سے یہ نسبت اعزاز ہی ہے لیکن |
| نسبت ہی سے تو گھر بھی بسائے نہیں جاتے |
| آئینہ دیکھوں تو رو بہ رو آ جاتا ہے درد |
| کُچھ درد آئینے سے بھی چھپائے نہیں جاتے |
| اس افسردگی میں ڈھلے باغ سے اب فیصل |
| جشنِ بہاراں پہ پھُول بلائے نہیں جاتے |
| فیصل ملک |
معلومات