لکھوں کوئی ایسا فسانہ نیا
سخن پر جو لائے زمانہ نیا
۔
میں تجھ پر یقیں بھی کروں گا کبھی
ہے اپنا ابھی آنا جانا نیا
۔
دکھا دے جو باطن بھی میرے خدا
بنا دے وہ آئینہ خانہ نیا
۔
بہانے سبھی تو لیے آزما
اک اور ڈھونڈتا ہوں بہانا نیا
۔
سخن ور اٹھا کون اے ریختہ
یہ کس نے لکھا ہے ترانا نیا
۔
جگر غالب و میر سب ہو چکے
مدثر ترا ہے زمانا نیا

0
9