مری جانِ وفا میں یہ نہیں دشمن کہ تیرا ہوں
مجھے شبِ الم سا بھول جا میں بس اندھیرا ہوں
خبر کچھ بھی نہیں کب اشکوں سے سیراب ہو مٹی
یہاں کھل بھی نہ سکے خار میں وہ سخت صحرا ہوں
الگ ہیں مجھ سے دنیا اور اس کی وارداتیں سب
اجڑ ہے جو بچھڑ ہےجو گیا ان کا بسیرا ہوں
مجھے مت پیار کر اور ہونٹوں سے مت چوم تو جاناں
مئے ہوں میں گو بگڑی اور گناہِ بد کبیرہ ہوں
جو جیسا ہو عکس اس کو میں بتلا دیتا ہوں آخر
رواں میں ہوں نہیں شفاف بس پانی جو ٹھہرا ہوں
کہ حسبِ زندگی ہوجا کسی کا پر کہہ دے آخر
عبیدِ باوفا میں ہی ترا تھا اور میں تیرا ہوں

10
166
سلام،
چند باتوں کی طرف توجہ مبذول کرانا چاہوں گا:
1. صحرا اور ٹھہرا کے قافیوں پہ نظرِ ثانی کریں.
2. "گناہِ بد کبیرہ" کی ترکیب میں معنوی غرابت ہے. گناہِ کبیرہ کی حد تک ٹھیک ہے.
3. "جو جیسا ہو عکس" میں وزن ٹوٹ رہا ہے، اگر یوں ہو تو وزن پورا ہو جائے گا:
وہ جیسا بھی ہو عکس....
والسّلام..

کیونکہ تیرا، اندھیرا کے ساتھ صحرا اور ٹھہرا کا قافیہ نہیں باندھا جا سکتا بلکہ ان کے ساتھ کبیرہ کا قافیہ لانا بھی معیوب ہے کیونکہ یائے معروف اور یائے مجہول کا تفاوت حائل ہے...

وعلیکم اسلام جی عزیز
مگر ہم اسے کمزور قافیہ کہہ کر کام چلا سکتے ہیں یا نہیں
یا پھر یہ پورا ہی برخاست کردیا جائے؟

0
سلام،
کبیرہ کا قافیہ تو خیر لا سکتے ہیں (گو معیوب سہی) مگر صحرا اور ٹھہرا کی بالکل گنجائش نہیں ہے...

گناہِ بد کبیرہ کی جگہ آپ گناہ اک کبیرہ لایا جا سکتا ہے...

0
یعنی گناہِ اک کبیرہ
صحیح؟

0
نہیں گناہ اک کبیرہ ہوں، اس سے مفہوم بھی برقرار رہے گا اور وزن میں بھی کوئی جھول نہیں آئے گا...

0
چلو صحیح ہے بھائی thanks

0
آپ Facebook پہ ہو تو جوائن کریں مُجھے
میری یہی id یہی pic ہے

0
میں تنقید کو بلکل مثبت نظریے سے لیتا ہوں۔ جو بھی خرابی لگے آپ بے شک مُجھے آگاہ کریں