یورپ میں بڑھ رہی ہے یہ موجِ تغیرات
نورِ خدا میں ڈھلتے ہیں غربی تصورات
دانش گرِ فرنگ سے جا کر کوئی کہے
گر سکتا ہے یہ تیری مکارت کا سومنات
یہ زہر بیچتا ہے دواؤں کے نام پر
ان ہی دواؤں سے تری ہو جائے گی وفات
ظلماتِ پر فریب سے بد دل کیوں ہو گئے
کیا کہہ رہی ہے صبح یہ کیجیے تو التفات
پھر آزرانِ دہر کو اللہ پر یقین
بارے بتانِ عقل بدلتے ہیں نظریات
پھر سے رواں رواں میں ہے ذاتِ الہ کی گونج
غیب و حضور ذات کی دل میں ہے واردات
پھر سے بتانِ کفر سے کرنے لگے حذر
آئی نظر فرنگ کو اسلام میں نجات
کیا انقلاب غرب کی مسجد بھری ہوئی
دانش وروں کی ہو گئی بے کار ساری گھات
سارے غیوب عقل میں بدلے شہود سے
سارے محال ہو گئے نظروں میں ممکنات
اصنام ساز اپنی ہی صنعت سے منحرف
اللّٰہ کا کرشمہ یا تبلیغی معجزات
آباء پرستی کا گرا یہ منہ کے بل ہبل
پھر ہوئے پاش پاش یہ تقلید کے منات
آئی نظر جو ذروں میں دیکھا ہے غور سے
ذروں کی سب جہات میں تکبیرِ شش جہات
ہنگامہ روزگار کا بتلاتا ہے اسے
سینۂ کاف و نون میں کچھ بھی نہیں ثبات
غیب و حضور اپنے وجودوں میں ایک ہیں
دل کو نظر نہ آئے تو دل من مقصرات
بت کی طرف ہے ہند میں مومن رواں دواں
کیوں بڑھ رہے ہیں ہند میں زندیقی حادثات
نمرود پھر خلیل کو دیتا ہے آگ میں
اب بڑھ رہے ہیں ہند میں سنگھی تخیلات

0
10