سبھی حرف اشکوں سے تر ہو گئے ہیں
خودی سے خودی بے خبر ہو گئے ہیں
سبق زندگی نے ہیں ایسے سکھائے
کہ ہم تو خمیدہ کمر ہو گئے ہیں
سبھی عمر ہیں چاہتے جاودانی
فقط شب گزیدہ امر ہو گئے ہیں
مٹا کر خودی کو جو تیرے ہوئے ہیں
وہی تیرے نورِ نظر ہو گئے ہیں
پیا جس نے تقوی کا پانی جہاں میں
شجر سب وہی با ثمر ہو گئے ہیں
کلام وسیم احمد محمودؔببٹ

0
83