| ویسے بھی ہنس رہی تھی تو بے سہارا کر کے |
| زندگی اچھا کیا تو نے کنارہ کر کے |
| میں بہت دکھ میں ہوں میری جاں تری حرکت پر |
| تو کہاں چھپ گئ ہے مجھ کو اشارہ کر کے |
| دوسری بار بچھڑنے میں ہے کتنا نقصان |
| تم کبھی دیکھنا ایسا ہی خسارہ کر کے |
| پہلے نس عمر تجھے چاند بنا کر رکھا |
| اب گزرتی ہے تجھے آنکھ کا تارا کر کے |
| اب تو ہر بات سنو گے مری سب مانو گے |
| اب دوا کر رہے ہو مجھ کو بے چارہ کر کے |
| مجھ سے پہلے تُو چلا آیا تھا برزخ کے جہان |
| میں ابھی آیا ہوں دوزخ کا نظارہ کر کے |
| میں نے سمجھایا تھا لیکن تُو بَضد تھا اس پر |
| تُو بچھڑ ہی گیا ناں عشق دوبارہ کر لے |
| منکرِ دین میں اللہ کی حسیں اک لڑکی |
| کیسے جیتی رہی ہر ظلم گوارا کر کے |
| نور شیر |
معلومات