میری جو عاجزی ہے، دربارِ یار لے جا
یہ اشک حِجر کے ہیں، بادِ بہار لے جا
نالاں کھڑا ہوں اس جا، شہرِ نبی کے زائر
کچھ نالے میرے دل کے، اُن کے دیار لے جا
گر تیرے راستہ میں، ہوں طُور سے وہ جلوے
تو اپنے ساتھ میرے، ہوش و قرار لے جا
بابِ حبیب پر میں، آؤں سلام کرنے
گجرے درود کے ہیں، اُن کے دیار لے جا
نثارِ نعلِ جاں ہوں، قُربان جان میری
اُس شاہ کے چمن میں، یہ داماں تار لے جا
اے عازمِ حرم یہ، اس دل سے ہے ندا اب
عاصی سے ساتھ اپنے سارے شعار لے جا
اُن کا دیا ہے پیارے، اپنا کہاں سے میرا
یہ آن شان غیرت، اُن پر نثار لے جا
کب نام کی ہے چاہت، کیا آرزو ہے شاہی
میری طلب ہیں دلبر، یہ دل ہے زار لے جا
مثلِ غبار ہے اب، میری لحد سے مٹی
یہ گرد بادِ فاراں، تو باغِ یار لے جا
بیمار عشقِ جاناں، کہتا ہے یہ زمانہ
ہے زندگی جہاں پر، ہوں اشک بار لے جا
محمود حسن اُن کا، بے مثل ہے خَلق میں
یہ جان و دل مدینے، اے راز دار لے جا

20