| خلوص و مہر کے سانچے میں ڈھل کے بات کرو |
| قیودِ عہد سے باہر نکل کے بات کرو |
| کہا یہ موسیٰؔ سے حق نے کلام کرتے ہوئے |
| تمہاری ماں نہیں زندہ، سنبھل کے بات کرو |
| جو توڑنے کا نہیں، پھر تو جوڑ کے رکھ لو |
| نہ آئے گا وہ یہاں، تم ہی چل کے بات کرو |
| شکستہ حال تمہارا نہ کر سکے گا اثر |
| خزاں کی زردیاں چہرے پہ مل کے بات کرو |
| خفا کیا تھا اسے اب مناتے پھرتے ہو |
| کہا تھا کس نے تمہیں یوں مچل کے بات کرو |
| خریدنے ہیں مجھے پھل تمہارے ٹھیلے سے |
| تو دام کتنے ہوئے سارے پھل کے، بات کرو |
| منافرت میں حدیں تم نے پار کر لی ہیں |
| سو میری آنکھوں سے کچھ دور ٹل کے بات کرو |
| خفا نہ ہونا ابھی تو مریض سویا ہے |
| کرو نہ شور، ذرا دھیمے، ہلکے بات کرو |
| جسے خدا نے نوازا، اسے زوال کہاں؟ |
| ہزار کینہ رکھو، کُڑھ کے، جل کے بات کرو |
| رشیدؔ شعر کی وقعت سے آشنا ہے کون |
| ملے نہ داد تو تم بھی اچھل کے بات کرو |
| رشید حسرتؔ |
| ۲۸ دسمبر ۲۰۲۴، شام ۰۵ بج کر ۳۱ منٹ پر غزل مکمل ہوئی |
معلومات