| ہم عدو کو اَمَانِ وَفا دیتے ہیں |
| بے وفا کو نظر سے گِرا دیتے ہیں |
| تحفہ ہی تھا اسی سے نصیبِ مِلَن |
| آج اس چاہ کو ہم بھُلا دیتے ہیں |
| ہم سے جو پوچھتے ہیں صنم کی وفا |
| چشمِ نم سے زبانی سُنا دیتے ہیں |
| شہرِ محبوب میں گردشی باد کو |
| اپنے دل سے پیامِ وفا دیتے ہیں |
| جس جگہ یارِ رنگت نظر آئے ہے |
| اس جگہ دل کو ہم ہی لُٹا دیتے ہیں |
| ہر سَحَر میں بنا کے ترے عکس کو |
| اپنے دل کو میاں خود سَزَا دیتے ہیں |
| دعوے جو برملا کرتے ہیں وہ بُہت |
| ہم ہیں کیا آج اُن کو بَتا دیتے ہیں |
| جو رضؔی سے کرے دل سے نفرت بہت |
| وقت آنے پر بدلا چُکا دیتے ہیں |
معلومات