| ذرا ٹھہرو ابھی تو ظلم کی بھی ہار باقی ہے |
| امامِ وقت کا آنے کو یاں سالار باقی ہے |
| ختم بھی ہونے کو لوگو کا انتظار باقی ہے |
| پلٹ کے آنے کو جو حیدرِ کرار باقی ہے |
| عجب ہوگا وہ منظر سر بھی یہ بولیں گے اڑ اڑ کر |
| ابھی عباس کی تلوار کا ہر وار باقی ہے |
| کہیں گے دشمنِ زہرا چبا کر ہاتھ وہ اپنے |
| ابھی تو چلنے کو ہم پر یہ ذوالفقار باقی ہے |
| یہ ہی کہتی ہے مولا سے یہ ذوالفقار بھی پیہم |
| جو برقعے میں تھا بھاگا مولا وہ فرار باقی ہے |
| نکالیں گے جو قبروں سے سبھی شیخین کو مولا |
| جلا کے پوچھیں گے یہاں پر کوئی غدار باقی ہے |
| علم لہرا کہ کعبے پے کہیں گے مہدئِ دوراں |
| زمانہ دیکھ لے کہ دین کا سردار باقی ہے |
| سمجھ لیں شیخ جی کہ ماننے والے زمانے میں |
| تمھارے منہ چھپانے کو نہ کوئی غار باقی ہے |
| لکھے صائب پڑھے عابس قصیدہ یہ بھی کو بہ کو |
| زمانہ کہہ اٹھے گا یہاں پر حبدار باقی ہے۔ |
معلومات