| شب کی کالک کے صد منتظر رہتے ہیں |
| رات کے ہم بے حد منتظر رہتے ہیں |
| کھوج سی رہتی ہے اب ہمیں زخموں کی |
| زخموں کے ہم اشد منتظر رہتے ہیں |
| ہم وہ راحت پرست آدمی ہیں جگر |
| جن کے ہر نیک و بد منتظر رہتے ہیں |
| یہ نگر ہے دَرِندوں کا جانم یہاں |
| دل چَبانے کو گِدھ منتظر رہتے ہیں |
| یہ کتابِ ستم جو لکھی دل پے ہے |
| کب ہو گی جانے رد ، منتظر رہتے ہیں |
معلومات