| امید بھی ٹوٹی مری حسرت پہ بھی رویا |
| یوں محفلِ عالم میں مجھے کیا نہیں بھایا |
| شرمندۂ تعبیر نہ وہ خواب ہو پایا |
| جس خواب کی تعبیر کو روتا ہوا سویا |
| وہ بزمِ جنوں پرور و آور کہ جہاں میں |
| جس بزم کے چرچے تھے ہوں میں اس کا ہی جویا |
| کیا کیا تھے گماں محفلِ دیرینہ سے تجھ کو |
| اے دل کہ تری حسرتِ ناکام پہ رویا |
| بےنور ہے وہ شمعِ دل افروز اے ساقی ! |
| جس شمع کے پروانے جگر سوز تھے گویا |
| وہ انجمن آرائی ترے بادہ کشوں کی |
| مے خانۂ عالم میں وہ اب رنگ نہیں پایا |
| پیمانے بھی ٹوٹے ترے ، مے کش ہوئے رخصت |
| شاید کہ میں محفل میں بہت دیر سے آیا |
معلومات