وعدہِ جاں ہے تو جاں لٹائیں نہ کیوں؟
جان دے کر اُنہیں ہم منائیں نہ کیوں؟
جس کے شعلوں میں دکھتا ہے جاناں کا رُخ
آگ سینے سے ایسی لگائیں نہ کیوں؟
شوخ اُنکی نظر ، چہرہ ہے آفتاب
دیکھنے والے نظریں جھکائیں نہ کیوں
جو فنا ہے، وہی اصلِ ہستی نہیں؟
پھر فنا میں بقا ڈھونڈ لائیں نہ کیوں ؟
خود فریبی ہے یا چشمِ بینا کا فقر
آج خود سے سوالات اُٹھائیں نہ کیوں؟
اُن سے مدت ہوئی ہے ملاقات کو
خواب میں آج اُنکو بلائیں نہ کیوں
چاند خاموش ہے کہکشاں بھی ہے چپ
دھڑکنِ دل اِنہیں ہم سُنائیں نہ کیوں

0
2