بری عادت مجھے سچ بولنے کی |
بناوٹ کی حقیقت کھولنے کی |
کوئی جیسا بھی چاہے شعر کہہ لے |
مجھے آخر پڑی کیا تولنے کی |
کھلا ہے فن سبھی کا دھیرے دھیرے |
ضرورت ہی نہیں کچھ بولنے کی |
بہت ہو لی کمائی معصیت کی |
گناہوں میں ذرا سی گھول نیکی |
پڑا پھندہ گلے میں گیسووں کا |
بڑی خواہش تھی آفت مولنے کی |
سنی جاتی کہاں ہے اپنی کوئی |
مری مرضی ہے، مرضی "ڈھولنے" کی |
ہمارا ملک تھا خود دار حسرتؔ |
بڑی رسوائی پھر کشکول نے کی |
رشِید حسرتؔ |
۲۲ مئی ۲۰۲۵ |
معلومات