| بزم جب بھی سجی ذکرِ سرکار کی |
| بے بہا رحمت اتری ہے ستار کی |
| ۔ |
| شوقِ جنت نہ انعام و شہرت کی حرص |
| نعت سرور طلب ہے فقط پیار کی |
| ۔ |
| کوئی مشکل نہیں جوشِ رحمت میں گر |
| کر دیں یوں ہی شفاعت وہ دو چار کی |
| ۔ |
| بس ہے کون و مکاں میں یہی بارگاہ |
| کوئی صورت جہاں پر نہ انکار کی |
| ۔ |
| سائلو! ہے مدینے میں وہ در جہاں |
| جنبشِ لب کی حاجت نہ تکرار کی |
| ۔ |
| بس خیالوں میں ان کے ہی رہنا مگن |
| ایسے ہوتی ہے معراج افکار کی |
| ۔ |
| ان کی نسبت کی ہر چیز سے ہم کو پیار |
| ایسے کرتے ہیں صورت ہم اظہار کی |
| ۔ |
| کر دیں آقا بجاہِ جنابِ عمر |
| مجھ پہ بارش کبھی اپنے انوار کی |
| اے مدثر اگر شاہ کر لیں قبول |
| خوب قیمت لگے پھر ان اشعار کی |
معلومات